09:30:00 Farah Deeba Akram 0 Comments

پچھلی یاد سے
نئے تعلق میں
اسے مسلسل سُن رہی ہوں
وہ مُجھ میں مسلسل بول رہا ہے
راتیں کیسے بحث و تکرار میں اُلجھتی رہیں
دن سانس کی قیمت میں صرف ہو گئے
جُملے نرم سے سخت۔۔۔سخت سے تُند۔۔۔تُند سے تکلیف دہ ہوئے
اسے شور پسند تھا
اور میں چیخ نہیں سکتی تھی
لڑتے لڑتے اک شام وہ
بے بسی کی اذیت میں
کمرے سے برآمدے کی سیڑھیوں پہ جا بیٹھا
کئی گھنٹے بچوں کی طرح بے پرواہ
خدا دیکھتے دیکھتے روتا رہا
جیسے کوئی بھرا برتن اچانک زمین پہ اُنڈیل دے
جانے وہ کون سا نحص لمحہ تھا
جس میں اسے چپ نگل گئی
دن، مہینے، سال۔۔۔امید میں رخصت ہوئے
لیکن ہم آواز کو دروازہ کھول کے اندر نہیں بُلا سکے
سرد مہری گلیشیئر سے پھوٹ کر
ہمارے دلوں میں جوان ہو گئی تھی
اُسے نفسیات نے دھوکہ دیا
مجھے خود پسندی نے رسوا کیا
ہم اپنے ہی کھینچے دائروں میں بھٹکتے ہوئے
ساری حیاتی خود کو پار نہ کر سکے۔۔۔
فرح

0 comments:

نثری نظم۔۔۔

14:10:00 Farah Deeba Akram 0 Comments

نثری نظم۔۔۔
عجیب سی رات تھی
کوئی راز کی بات
جس میں پنہاں تھی
لمحہ لمحہ بیت کر
سال سال بڑھ رہی تھی
جو گزر گیا
وہی آنیوالا تھا
ستارے روشنیوں سے نکل کر
فنشنگ لائن کی سمت
بے نشاں بھاگ رہے تھے
صدیاں جوق در جوق
کُن میں داخل ہو رہی تھیں
کائنات در کائنات
سب حاضری میں تھے
حجاب کے کھلے میدان میں
سب اپنا اپنا احوال اُٹھائے
خود سے دستبردار ہو رہے تھے
نئے عہد و پیماں باندھ کے
اک اور جہاں کی تعمیر میں
باری باری ہجرت ہو رہی تھی
آہ سے آہٹ تک
خود سے پھر مجھ تک
نئی روح پرانے جسم میں
نا معلوم سیارے کی کوک میں چیختی ہوئی
زندگی سے ہاتھ ملا رہی تھی
اور میں الوداع ہو رہی تھی
فرح

0 comments: