نثری غزل۔۔۔
آخری جُملے سے پہلے لفظ تک
سفر ہی بدل گیا راستہ ملنے تک
سفر ہی بدل گیا راستہ ملنے تک
اک روز کردار اپنا تعارف خود کروانے لگے
میری کہانی کی موت ہو گئی مکمل ہونے تک
میری کہانی کی موت ہو گئی مکمل ہونے تک
جو کہیں بلآخر نہیں ملا تو
میں خود آپ ہی بن گیا وہ
میں خود آپ ہی بن گیا وہ
کمرہ، آرام کُرسی، لیمپ، ایش ٹرے
دھوئیں میں زندگی سانس لے رہی ہے
دھوئیں میں زندگی سانس لے رہی ہے
جسے خواب میں سنوارا تھا کل
وہی منظر کینوس پہ اتارا ہے آج
وہی منظر کینوس پہ اتارا ہے آج
یہ مرحلہ بھی تیرے شوق میں دیکھا ہم نے
کہ تجھے دیکھنے کے واسطے ذرہ ذرہ دیکھا ہم نے
کہ تجھے دیکھنے کے واسطے ذرہ ذرہ دیکھا ہم نے
پہلے تو باہر کی سب آوازیں گونگی کی میں نے
پھر تیری آواز سننے، خامشی میں اُترنا پڑا مجھے
پھر تیری آواز سننے، خامشی میں اُترنا پڑا مجھے
فرح
0 comments: