End Note!!!

14:54:00 Farah Deeba Akram 0 Comments

End Note۔۔۔
مجھے معلوم نہیں تھا
تعلق کا end note نہیں لکھتے
اس کی پرورش کرتے ہیں
بلاناغہ آبیاری کرنی ہوتی ہے
تراش خراش کرتے رہتے ہیں
دھوپ میں سایہ بن کر
کبھی سردی میں کرنوں کی صورت
اس کی دیکھ ریکھ کر کے
اک روز تناور رشتہ بنانا تھا
پھر اس کے پھل کو، پتھروں سے بچانا تھا

پوری بات سن کر
آدھی بھول جانی تھی
خود سے ہی جو کہتی رہی
اسے پاس بٹھا کر بتانی تھیں
مجھے اس کی چاہ ہے
ایک ہی بار بتانے والی بات
کئی کئی بار نہیں دہرانی تھی
اوروں نے جو بتلائی، وہی کہانی
ایک بار اُس سے بھی پوچھ لینی تھی

میں اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے
موجود سے غیر موجود میں
لامکاں سے مکاں میں
خود تھکنے لگی ہوں
اپنے سائے میں بیٹھتی ہوں تو
سایہ جسم سے بڑھنے لگتا ہے
دل راستہ، عشق مسافر، خواب راہنُما
منزل ساتھ ساتھ بتلاتی ہے
وہ مل جائے تو حاصل کا خالی پن
اور نہ ملے تو لاحاصل کی وحشت۔۔۔

فرح

0 comments: