جشن آزادی

11:37:00 Farah Deeba Akram 0 Comments

مدر ڈے، فادر ڈے اور ایسے ہی کئی سارے ڈیز منا نے والوں کے خلاف دلیلوں کے انبار لگا دیے جاتے ہیں کہ رشتوں کی محبت اور اہمیت کے لیئے ایک ہی دن کیوں مُختص کیا جائے، اس کے لئے سال کے باقی تین سو چونسٹھ دن کیوں نہیں؟ اور یہ تو خالصتاً مغربی روایت ہے جسے ہم اپنے معاشرے میں اہمیت اور فروغ دے رہے ہیں۔
مگر آزادی مناتے ہوئے اس بات کا بالکل خیال نہیں رہتا کہ مُلک سے محبت بھی کیا صرف ایک دن ہی ہوتی ہے سال کے تین سو چونسٹھ دن کیا یہ نیند کی گولیاں کھا کے آرام فرما رہی ہوتی ہے؟ اور ماشااللہّ سے ایک دن بھی ایسے والہانہ انداز میں محبت کا اظہار ہوتا ہے کہ سڑکوں پہ لوگ گھنٹوں کے حساب سے آزادی کو ناچتا، کودتا دیکھ کر کوسنا شروع کر دیتے ہیں۔ اگلے روز ل و م ک کی گاڑی پیروں تلے روندے جھنڈے اُٹھا کر لے جاتی ہے اور گلیوں میں بکھرے جھنڈے بارش وارش میں دُھل کر صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں۔ جشنِ آزادی کی مادی شکل ٹی وی پروگرامز سے گھر کے دالانوں تک گونجتی سُنائی دیتی ہے مگر اس کی روح کہیں نہیں ملتی اور پھر پندرہ اگست کو اسکا وصال شریف ۔۔۔
دراصل ہم نے آزادی منانا ہی سیکھا ہے آزادی جینا نہیں۔ جو آزاد ہوتے ہیں اُنہیں ہر قید تکلیف دیتی ہے بھلے وہ اپنیے آپ کی غلامی ہی کیوں نہ ہو۔ محض جھنڈے لہرانے سے ملک کی محبت کا ثبوت نہیں دیا جا سکتا، جھنڈے کے رنگ جینے پڑتے ہیں۔ ممٹیوں اور گاڑیوں پر جھنڈے لگانے سے اسکا حق ادا نہیں ہوتا اس کے لئے سال کے تین سو پینسٹھ دن جھنڈا دل میں سجا کے آزاد، باشعور اور ایماندار شہری کے طور پر اپنی قومی زمہ داری پوری کرنا لازم ہوتا ہے۔

You Might Also Like

0 comments: