Urbanization

01:52:00 Farah Deeba Akram 0 Comments


نثری نظم۔۔۔اربنائزیش
شہر کی بے لگام رفتار میں
ہری، پیلی، لال بتی دیکھ دیکھ کر
سال لمحوں میں بیت گئے
رونقوں کے خالی پیالے میں
بے معنی قہقہے لگا لگا کر
کتنے ہی بیچارے لوگ
کامیابی سے گلے ملتے ہوئے
خود سے محروم ہو گئے
آسمان، کنکریٹ کے جِن اور ماتڑ لوگ
دیکھ کے دل، ایک نہیں کئی بار دہلتا ہے
بُلندی بڑی توجہ طلب ہوتی ہے
اور توجہ ایمانداری سے پھوٹتی ہے
اِدھر پل بھر کی کوتاہی
اُدھر کہانی کا tragic end
جانے کتنے گھروں کے چراغ بُجھیں گے
حاکموں کے بس امداد کے اعلان
افسوس کے بیان
اور انکوائری کے احکام آئیں گے
آنکھ کے پاس قدرت نہیں رہی
تا حدِ نظر عمارتیں ہی عمارتیں
جیسے ہوا میں لٹکے اُلو
اپنا آپ نوچ رہے ہوں
ماڈرنٹی ناشتے کی میز پر
ہمارا ورثہ کھا رہی ہے
شہر کی تہذیب آئی سی یو میں
الوداعی ہچکیاں بھر رہی ہے
لارنس کے پرندے، ایم ایم عالم کا فٹ پاتھ، کینال کے درخت
شہر کی تاریخی کتاب میں ملیں گے
دوست، احباب، رشتے، ناطے۔۔۔سارے
کریڈٹ کارڈ سے آن لائن دستیاب ہوں گے
خوشیاں ٹی سی ایس سے ہوم ڈلیور ہوں گی
بھائی سانس لینے کی قیمت ہو گی
زندگی بھی capitalist کی پروڈکٹ ہو گی
البتہ موت فری آف کاسٹ ہو گی
انسان بننے کی پھر سخت سزا ہو گی۔۔۔
فرح

0 comments:

کالاش

12:42:00 Farah Deeba Akram 0 Comments

نثری نظم۔۔۔کالاش
منظر اور منظر نامے کے درمیان کھڑی
مفتی صاحب کا تیاگ سوچ رہی ہوں
بلندی، لطافت، سائیکالوجی
ادب اور فطرت کا
انسان سے ٹریٹمنٹ
آنکھ کے کارنیا سے
دل میں سمو رہا ہے
میں، سلمی، شیما
اپنے آپ میں خاموش
باتیں کرنے کا ہُنر سیکھ رہی ہیں
بارہ کہو کی سیرینٹی میں
وقت کا پڑاؤ ہے
ہوا جالی کی کھڑکی سے
تخت پوش پر لیٹی کتابوں کے صفحوں میں
اپنی قسمت کا حال پڑھ رہی ہے
رات سائیڈ لیمپ کے سرہانے
پروانے کو داستانِ لیلی سناتے سناتے
سورج سے جا ملی ہے
زندگی لاونج میں صوفے پر
گاؤ تکیے کی ٹیک سے آدھ لیٹی
ایرانی اکنامکس پر گفتگو کر رہی ہے
سامان ایسے بکھرا ہے
جیسے کوئی رہتا تو ہے
مگر ذیادہ دن نہ رہے گا
دیر سے چترال کے راستے پر
چٹانیں ایسے پیار سے رکھی ہے
جو اوپر ہے وہ نیچے نہیں گرے گا
جو نیچے ہے وہ زمین پر نہیں اترے گا
لیول ایک سطح پر ہونا نہیں
اپنی صحیح جگہ پر ہونا ہے
بلندیوں کے ماتھے پر لکھا ہے
اپنی اوقات سے ذیادہ، اوپر نہ دیکھیں
وگرنہ گردن ٹوٹ سکتی ہے
تھوڑا آگے دریا کے ساتھ ساتھ
امن کی وادیاں ہیں
جن میں خوشکُن باشندے
اناج، محبت، قناعت بوتے ہیں
نئے موسموں کی آمد پر
مسّرت بھرے گیت گا کر
خلوص کے بندھن باندھتے ہیں
اور یوں ہی ہنستے ہنساتے
اپنا اپنا حصہ کاٹ لیتے ہیں
میں کوسڑ کی کھڑکی سے مُنہ لگائے
کب سے سوچ رہی ہوں
زندگی کیسے رائیگاں کر دی
فرح

0 comments:

جشن آزادی

11:37:00 Farah Deeba Akram 0 Comments

مدر ڈے، فادر ڈے اور ایسے ہی کئی سارے ڈیز منا نے والوں کے خلاف دلیلوں کے انبار لگا دیے جاتے ہیں کہ رشتوں کی محبت اور اہمیت کے لیئے ایک ہی دن کیوں مُختص کیا جائے، اس کے لئے سال کے باقی تین سو چونسٹھ دن کیوں نہیں؟ اور یہ تو خالصتاً مغربی روایت ہے جسے ہم اپنے معاشرے میں اہمیت اور فروغ دے رہے ہیں۔
مگر آزادی مناتے ہوئے اس بات کا بالکل خیال نہیں رہتا کہ مُلک سے محبت بھی کیا صرف ایک دن ہی ہوتی ہے سال کے تین سو چونسٹھ دن کیا یہ نیند کی گولیاں کھا کے آرام فرما رہی ہوتی ہے؟ اور ماشااللہّ سے ایک دن بھی ایسے والہانہ انداز میں محبت کا اظہار ہوتا ہے کہ سڑکوں پہ لوگ گھنٹوں کے حساب سے آزادی کو ناچتا، کودتا دیکھ کر کوسنا شروع کر دیتے ہیں۔ اگلے روز ل و م ک کی گاڑی پیروں تلے روندے جھنڈے اُٹھا کر لے جاتی ہے اور گلیوں میں بکھرے جھنڈے بارش وارش میں دُھل کر صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں۔ جشنِ آزادی کی مادی شکل ٹی وی پروگرامز سے گھر کے دالانوں تک گونجتی سُنائی دیتی ہے مگر اس کی روح کہیں نہیں ملتی اور پھر پندرہ اگست کو اسکا وصال شریف ۔۔۔
دراصل ہم نے آزادی منانا ہی سیکھا ہے آزادی جینا نہیں۔ جو آزاد ہوتے ہیں اُنہیں ہر قید تکلیف دیتی ہے بھلے وہ اپنیے آپ کی غلامی ہی کیوں نہ ہو۔ محض جھنڈے لہرانے سے ملک کی محبت کا ثبوت نہیں دیا جا سکتا، جھنڈے کے رنگ جینے پڑتے ہیں۔ ممٹیوں اور گاڑیوں پر جھنڈے لگانے سے اسکا حق ادا نہیں ہوتا اس کے لئے سال کے تین سو پینسٹھ دن جھنڈا دل میں سجا کے آزاد، باشعور اور ایماندار شہری کے طور پر اپنی قومی زمہ داری پوری کرنا لازم ہوتا ہے۔

0 comments:

خود تراش

08:37:00 Farah Deeba Akram 0 Comments

نثری نظم/ خود تراش
وہ خواب جو میں نے تعمیر کیا تھا
دیکھو اسے مت گراؤ
میں نے تن کاٹ کے اس کی بنیادیں رکھیں تھیں
اسے اپنے لہو سے سینچا تھا
رت جگوں میں سوچ کر
اُجالوں میں کمایا تھا
معصوم خواہشوں کے سہارے دے کر
نیک جذبوں سے ڈھانپا تھا
اور کتنے ہی آسان لمحوں کو ٹھکرا کر
بہت سی مفت میں ملی منزلوں کو گنوا کر
اپنے وجود کی شناخت کا
کٹھن اور طویل راستہ چنا تھا
میں نے ہمت کی پائی پائی جوڑ کر
زندگی کا حوصلہ خریدا تھا
تمہیں کیا پتہ کیسے کیسے جتن کر کے
میں نے عورت ہونے کا خراج چکایا ہے
پھر جا کے اک خواب بنایا ہے
تمہارے سماج کی آنکھ سے نہیں
اپنے دل کی بینائی سے۔۔۔
فرح

0 comments: