خود تراش

08:37:00 Farah Deeba Akram 0 Comments

نثری نظم/ خود تراش
وہ خواب جو میں نے تعمیر کیا تھا
دیکھو اسے مت گراؤ
میں نے تن کاٹ کے اس کی بنیادیں رکھیں تھیں
اسے اپنے لہو سے سینچا تھا
رت جگوں میں سوچ کر
اُجالوں میں کمایا تھا
معصوم خواہشوں کے سہارے دے کر
نیک جذبوں سے ڈھانپا تھا
اور کتنے ہی آسان لمحوں کو ٹھکرا کر
بہت سی مفت میں ملی منزلوں کو گنوا کر
اپنے وجود کی شناخت کا
کٹھن اور طویل راستہ چنا تھا
میں نے ہمت کی پائی پائی جوڑ کر
زندگی کا حوصلہ خریدا تھا
تمہیں کیا پتہ کیسے کیسے جتن کر کے
میں نے عورت ہونے کا خراج چکایا ہے
پھر جا کے اک خواب بنایا ہے
تمہارے سماج کی آنکھ سے نہیں
اپنے دل کی بینائی سے۔۔۔
فرح

You Might Also Like

0 comments: