09:30:00 Farah Deeba Akram 0 Comments

پچھلی یاد سے
نئے تعلق میں
اسے مسلسل سُن رہی ہوں
وہ مُجھ میں مسلسل بول رہا ہے
راتیں کیسے بحث و تکرار میں اُلجھتی رہیں
دن سانس کی قیمت میں صرف ہو گئے
جُملے نرم سے سخت۔۔۔سخت سے تُند۔۔۔تُند سے تکلیف دہ ہوئے
اسے شور پسند تھا
اور میں چیخ نہیں سکتی تھی
لڑتے لڑتے اک شام وہ
بے بسی کی اذیت میں
کمرے سے برآمدے کی سیڑھیوں پہ جا بیٹھا
کئی گھنٹے بچوں کی طرح بے پرواہ
خدا دیکھتے دیکھتے روتا رہا
جیسے کوئی بھرا برتن اچانک زمین پہ اُنڈیل دے
جانے وہ کون سا نحص لمحہ تھا
جس میں اسے چپ نگل گئی
دن، مہینے، سال۔۔۔امید میں رخصت ہوئے
لیکن ہم آواز کو دروازہ کھول کے اندر نہیں بُلا سکے
سرد مہری گلیشیئر سے پھوٹ کر
ہمارے دلوں میں جوان ہو گئی تھی
اُسے نفسیات نے دھوکہ دیا
مجھے خود پسندی نے رسوا کیا
ہم اپنے ہی کھینچے دائروں میں بھٹکتے ہوئے
ساری حیاتی خود کو پار نہ کر سکے۔۔۔
فرح

0 comments:

نثری نظم۔۔۔

14:10:00 Farah Deeba Akram 0 Comments

نثری نظم۔۔۔
عجیب سی رات تھی
کوئی راز کی بات
جس میں پنہاں تھی
لمحہ لمحہ بیت کر
سال سال بڑھ رہی تھی
جو گزر گیا
وہی آنیوالا تھا
ستارے روشنیوں سے نکل کر
فنشنگ لائن کی سمت
بے نشاں بھاگ رہے تھے
صدیاں جوق در جوق
کُن میں داخل ہو رہی تھیں
کائنات در کائنات
سب حاضری میں تھے
حجاب کے کھلے میدان میں
سب اپنا اپنا احوال اُٹھائے
خود سے دستبردار ہو رہے تھے
نئے عہد و پیماں باندھ کے
اک اور جہاں کی تعمیر میں
باری باری ہجرت ہو رہی تھی
آہ سے آہٹ تک
خود سے پھر مجھ تک
نئی روح پرانے جسم میں
نا معلوم سیارے کی کوک میں چیختی ہوئی
زندگی سے ہاتھ ملا رہی تھی
اور میں الوداع ہو رہی تھی
فرح

0 comments:

End Note!!!

14:54:00 Farah Deeba Akram 0 Comments

End Note۔۔۔
مجھے معلوم نہیں تھا
تعلق کا end note نہیں لکھتے
اس کی پرورش کرتے ہیں
بلاناغہ آبیاری کرنی ہوتی ہے
تراش خراش کرتے رہتے ہیں
دھوپ میں سایہ بن کر
کبھی سردی میں کرنوں کی صورت
اس کی دیکھ ریکھ کر کے
اک روز تناور رشتہ بنانا تھا
پھر اس کے پھل کو، پتھروں سے بچانا تھا

پوری بات سن کر
آدھی بھول جانی تھی
خود سے ہی جو کہتی رہی
اسے پاس بٹھا کر بتانی تھیں
مجھے اس کی چاہ ہے
ایک ہی بار بتانے والی بات
کئی کئی بار نہیں دہرانی تھی
اوروں نے جو بتلائی، وہی کہانی
ایک بار اُس سے بھی پوچھ لینی تھی

میں اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے
موجود سے غیر موجود میں
لامکاں سے مکاں میں
خود تھکنے لگی ہوں
اپنے سائے میں بیٹھتی ہوں تو
سایہ جسم سے بڑھنے لگتا ہے
دل راستہ، عشق مسافر، خواب راہنُما
منزل ساتھ ساتھ بتلاتی ہے
وہ مل جائے تو حاصل کا خالی پن
اور نہ ملے تو لاحاصل کی وحشت۔۔۔

فرح

0 comments:

Urbanization

01:52:00 Farah Deeba Akram 0 Comments


نثری نظم۔۔۔اربنائزیش
شہر کی بے لگام رفتار میں
ہری، پیلی، لال بتی دیکھ دیکھ کر
سال لمحوں میں بیت گئے
رونقوں کے خالی پیالے میں
بے معنی قہقہے لگا لگا کر
کتنے ہی بیچارے لوگ
کامیابی سے گلے ملتے ہوئے
خود سے محروم ہو گئے
آسمان، کنکریٹ کے جِن اور ماتڑ لوگ
دیکھ کے دل، ایک نہیں کئی بار دہلتا ہے
بُلندی بڑی توجہ طلب ہوتی ہے
اور توجہ ایمانداری سے پھوٹتی ہے
اِدھر پل بھر کی کوتاہی
اُدھر کہانی کا tragic end
جانے کتنے گھروں کے چراغ بُجھیں گے
حاکموں کے بس امداد کے اعلان
افسوس کے بیان
اور انکوائری کے احکام آئیں گے
آنکھ کے پاس قدرت نہیں رہی
تا حدِ نظر عمارتیں ہی عمارتیں
جیسے ہوا میں لٹکے اُلو
اپنا آپ نوچ رہے ہوں
ماڈرنٹی ناشتے کی میز پر
ہمارا ورثہ کھا رہی ہے
شہر کی تہذیب آئی سی یو میں
الوداعی ہچکیاں بھر رہی ہے
لارنس کے پرندے، ایم ایم عالم کا فٹ پاتھ، کینال کے درخت
شہر کی تاریخی کتاب میں ملیں گے
دوست، احباب، رشتے، ناطے۔۔۔سارے
کریڈٹ کارڈ سے آن لائن دستیاب ہوں گے
خوشیاں ٹی سی ایس سے ہوم ڈلیور ہوں گی
بھائی سانس لینے کی قیمت ہو گی
زندگی بھی capitalist کی پروڈکٹ ہو گی
البتہ موت فری آف کاسٹ ہو گی
انسان بننے کی پھر سخت سزا ہو گی۔۔۔
فرح

0 comments:

کالاش

12:42:00 Farah Deeba Akram 0 Comments

نثری نظم۔۔۔کالاش
منظر اور منظر نامے کے درمیان کھڑی
مفتی صاحب کا تیاگ سوچ رہی ہوں
بلندی، لطافت، سائیکالوجی
ادب اور فطرت کا
انسان سے ٹریٹمنٹ
آنکھ کے کارنیا سے
دل میں سمو رہا ہے
میں، سلمی، شیما
اپنے آپ میں خاموش
باتیں کرنے کا ہُنر سیکھ رہی ہیں
بارہ کہو کی سیرینٹی میں
وقت کا پڑاؤ ہے
ہوا جالی کی کھڑکی سے
تخت پوش پر لیٹی کتابوں کے صفحوں میں
اپنی قسمت کا حال پڑھ رہی ہے
رات سائیڈ لیمپ کے سرہانے
پروانے کو داستانِ لیلی سناتے سناتے
سورج سے جا ملی ہے
زندگی لاونج میں صوفے پر
گاؤ تکیے کی ٹیک سے آدھ لیٹی
ایرانی اکنامکس پر گفتگو کر رہی ہے
سامان ایسے بکھرا ہے
جیسے کوئی رہتا تو ہے
مگر ذیادہ دن نہ رہے گا
دیر سے چترال کے راستے پر
چٹانیں ایسے پیار سے رکھی ہے
جو اوپر ہے وہ نیچے نہیں گرے گا
جو نیچے ہے وہ زمین پر نہیں اترے گا
لیول ایک سطح پر ہونا نہیں
اپنی صحیح جگہ پر ہونا ہے
بلندیوں کے ماتھے پر لکھا ہے
اپنی اوقات سے ذیادہ، اوپر نہ دیکھیں
وگرنہ گردن ٹوٹ سکتی ہے
تھوڑا آگے دریا کے ساتھ ساتھ
امن کی وادیاں ہیں
جن میں خوشکُن باشندے
اناج، محبت، قناعت بوتے ہیں
نئے موسموں کی آمد پر
مسّرت بھرے گیت گا کر
خلوص کے بندھن باندھتے ہیں
اور یوں ہی ہنستے ہنساتے
اپنا اپنا حصہ کاٹ لیتے ہیں
میں کوسڑ کی کھڑکی سے مُنہ لگائے
کب سے سوچ رہی ہوں
زندگی کیسے رائیگاں کر دی
فرح

0 comments:

جشن آزادی

11:37:00 Farah Deeba Akram 0 Comments

مدر ڈے، فادر ڈے اور ایسے ہی کئی سارے ڈیز منا نے والوں کے خلاف دلیلوں کے انبار لگا دیے جاتے ہیں کہ رشتوں کی محبت اور اہمیت کے لیئے ایک ہی دن کیوں مُختص کیا جائے، اس کے لئے سال کے باقی تین سو چونسٹھ دن کیوں نہیں؟ اور یہ تو خالصتاً مغربی روایت ہے جسے ہم اپنے معاشرے میں اہمیت اور فروغ دے رہے ہیں۔
مگر آزادی مناتے ہوئے اس بات کا بالکل خیال نہیں رہتا کہ مُلک سے محبت بھی کیا صرف ایک دن ہی ہوتی ہے سال کے تین سو چونسٹھ دن کیا یہ نیند کی گولیاں کھا کے آرام فرما رہی ہوتی ہے؟ اور ماشااللہّ سے ایک دن بھی ایسے والہانہ انداز میں محبت کا اظہار ہوتا ہے کہ سڑکوں پہ لوگ گھنٹوں کے حساب سے آزادی کو ناچتا، کودتا دیکھ کر کوسنا شروع کر دیتے ہیں۔ اگلے روز ل و م ک کی گاڑی پیروں تلے روندے جھنڈے اُٹھا کر لے جاتی ہے اور گلیوں میں بکھرے جھنڈے بارش وارش میں دُھل کر صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں۔ جشنِ آزادی کی مادی شکل ٹی وی پروگرامز سے گھر کے دالانوں تک گونجتی سُنائی دیتی ہے مگر اس کی روح کہیں نہیں ملتی اور پھر پندرہ اگست کو اسکا وصال شریف ۔۔۔
دراصل ہم نے آزادی منانا ہی سیکھا ہے آزادی جینا نہیں۔ جو آزاد ہوتے ہیں اُنہیں ہر قید تکلیف دیتی ہے بھلے وہ اپنیے آپ کی غلامی ہی کیوں نہ ہو۔ محض جھنڈے لہرانے سے ملک کی محبت کا ثبوت نہیں دیا جا سکتا، جھنڈے کے رنگ جینے پڑتے ہیں۔ ممٹیوں اور گاڑیوں پر جھنڈے لگانے سے اسکا حق ادا نہیں ہوتا اس کے لئے سال کے تین سو پینسٹھ دن جھنڈا دل میں سجا کے آزاد، باشعور اور ایماندار شہری کے طور پر اپنی قومی زمہ داری پوری کرنا لازم ہوتا ہے۔

0 comments:

خود تراش

08:37:00 Farah Deeba Akram 0 Comments

نثری نظم/ خود تراش
وہ خواب جو میں نے تعمیر کیا تھا
دیکھو اسے مت گراؤ
میں نے تن کاٹ کے اس کی بنیادیں رکھیں تھیں
اسے اپنے لہو سے سینچا تھا
رت جگوں میں سوچ کر
اُجالوں میں کمایا تھا
معصوم خواہشوں کے سہارے دے کر
نیک جذبوں سے ڈھانپا تھا
اور کتنے ہی آسان لمحوں کو ٹھکرا کر
بہت سی مفت میں ملی منزلوں کو گنوا کر
اپنے وجود کی شناخت کا
کٹھن اور طویل راستہ چنا تھا
میں نے ہمت کی پائی پائی جوڑ کر
زندگی کا حوصلہ خریدا تھا
تمہیں کیا پتہ کیسے کیسے جتن کر کے
میں نے عورت ہونے کا خراج چکایا ہے
پھر جا کے اک خواب بنایا ہے
تمہارے سماج کی آنکھ سے نہیں
اپنے دل کی بینائی سے۔۔۔
فرح

0 comments:

09:02:00 Farah Deeba Akram 0 Comments

نثری غزل۔۔۔
آخری جُملے سے پہلے لفظ تک
سفر ہی بدل گیا راستہ ملنے تک
اک روز کردار اپنا تعارف خود کروانے لگے
میری کہانی کی موت ہو گئی مکمل ہونے تک
جو کہیں بلآخر نہیں ملا تو
میں خود آپ ہی بن گیا وہ
کمرہ، آرام کُرسی، لیمپ، ایش ٹرے
دھوئیں میں زندگی سانس لے رہی ہے
جسے خواب میں سنوارا تھا کل
وہی منظر کینوس پہ اتارا ہے آج
یہ مرحلہ بھی تیرے شوق میں دیکھا ہم نے
کہ تجھے دیکھنے کے واسطے ذرہ ذرہ دیکھا ہم نے
پہلے تو باہر کی سب آوازیں گونگی کی میں نے
پھر تیری آواز سننے، خامشی میں اُترنا پڑا مجھے
فرح

0 comments:

نثری غزل۔۔۔ مُجھے وہ کرب بھی عزیز ہے

10:10:00 Farah Deeba Akram 0 Comments

نثری غزل۔۔۔
مُجھے وہ کرب بھی عزیز ہے
جرّاتِ سوال نے جو بخشا ہے
حوصلے سے مُسکرا کر سہوں گی
آپکی بےلگام، جزباتی تقریر کو
بھائی دلیل سے بات کیوں نہیں کرتے
گولی سے انسان مرتا ہے نظریہ نہیں
آؤ کچھ دیر جی بھر کے رو لیں
دل کہیں بہۂ ناں جائے اتنے پانی میں
وہ کہانی ادھوری چھوڑ جاؤں گی
جس کہانی میں زندگی بھی کہانی ہو
اک نعرۂ مستانہ، اک خوابِ دیوانہ
منبر و محراب سے سُنوایا جائے گا
یہ زماں و مکاں مجھے ہر لمحہ دہرائیں گے
میری داستاں کائنات کے سینے میں محفوظ ہے
فرح

0 comments:

نثری نظم۔۔۔۔۔۔۔کہانی اب زندگی کا عنوان نہیں

09:34:00 Farah Deeba Akram 0 Comments


نثری نظم

کہانی اب زندگی کا عنوان نہیں
او بھائی کردار ہی نہیں رہے تو کہانی کیسی
ہے spice اب تو بس 
چکا چوند بتی ہے
وہ بھی سولر پہ
جو کبھی جلنا ناں بھولے
جسم کا ایسا ننگا سودا ہے کہ وقت بھی بندے کومنہ نہیں لگاتا
 خواہشوں کا ایسا intense تماشہ ہے جس کی بین حرامزادوں کی ناف سے بجتی ہے
دوڑ لگی ہے پائی دوڑ
دوڑو، دوڑو بس دوڑتے ہی جاؤ
جیتنے کے لئے نہیں
میں رہنےکے واسطے Limelight
نہیں تو تمھیں کیا لگتا ہے
ایسے راستوں کی کوئی منزل بھی ہوتی ہے
پاگل یہ تو بس خام خیالی کےچمپئین ہیں
مادے کی منزل بھی مادہ ہی ہے
ایک طرف سے لوٹ رہے ہیں
دوسرے ہاتھ سے لٹا رہے ہیں
materialism دوست یہی تو ہے
ایسا بازار سجا ہے جہاں اللہ سے سیکس تک سب بکتا ہے
بس سارا مایا کا کیا دھرا ہے
ورنہ انسان تو معصوم ہے
اکیسیویں صدی میں خود کو دھوکہ دے کر خوش ہوتا ہے
دیکھو میں نے دنیا کو دھوکا دے دیا
اپنے لئے گڑھے کھودتا ہے
پھر سمجھتا ہے کوئی اور گر پڑے گا
مال سے محبت ہے، مال دینے والے سے نہیں
کتنا سستا سودا کیے جا رہا ہے
انسان ہونے کےوصف کو بیچ کے
کتا بنے جا رہا ہے
بس دُم ہلاتا، بھونکتا رہتا ہے
سڑکوں پہ
بازاروں میں
چوراہوں پر
آسمانوں کی طرف
تھک ہار کے اپنے آپ پر
بیچارا تھکا ہارا
دو ٹا نگوں والا
گلے میں ہڈی پھسائے کتا

فرح

0 comments:

نثری غزل۔۔۔ نیا جہاں

12:21:00 Farah Deeba Akram 0 Comments


میری دوست میں آج کہنے آئی ہوں
نیلے پانی کے پنچھی لوٹ آیئں گے
عمر رسیدہ آنکھوں کے خواب ٹوٹنے سے زرا پہلے
تعبیر کی شاہراہ بن جا ئیں گے
دھڑکتے لمحوں کی ذندہ جاوید کہانی
تاریخ میں نۓ دن کی طرح پھر اُگ آۓ گی
سفید آسمان کا بے نور روشن چاند
آنسوؤں کی تہہ میں روانی بھر دے گا
پرندے پھر سے منڈیروں پر گیت سُنائیں گے
سیاہ راتوں کے ماتم ستاروں کا بدن اوڑھ لیں گے
ننگے بھوکے بچے تن ڈھانپے
پیٹ بھر کر کھانا کھائیں گے
بازاروں کی زینت مجبور جسم نہیں بنیں گے
خالی ہتھیلیاں غریب کا مقدر نہیں ہوں گی
ظالم خود اپنے ظلم کا شکار ہوگا
کافر کہہ کر مارنے والا موت کا حقدار ہوگا
گردنیں صرف آقا کے آگے جھکیں گی
جینا سب کا ہموار، مرنا خوشگوار ہوگا
اذیتیں نیک کی شان اور ذلیتں بد کی پہچان ہونگی
راج ہوگا انسانیت کا، فرقوں کی دکان سرِبازار پاش پاش ہو گی
ناانصافی کا پھندہ آسمان کے مرکز پر لٹکایا جاۓ گا
میری دوست سنو!
پھر سے ایک ایسا جہان بسایا جائے گا
جہاں خوشیوں کا چمن سجایا جائے گا
فرح

LikeShow more reactions
Comment

0 comments:

نئی نسل بھی پُرانی نسل کا جدید چہرہ ہے

22:38:00 Farah Deeba Akram 0 Comments

نئی نسل بھی پُرانی نسل کا جدید چہرہ ہے
وُہی گھسے پٹے موضوع، پرانا وُہی اسلوب
کوئی نیاپن ہے نہ جدید جھونکا برداشت کرنے کا حوصلہ
اکیسویں صدی میں بیٹھ کر
محبوب، وصل، فراق کے قصیدے لکھ رہے ہیں
بھائی موضوع نہں بدلنا تو کم از کم
کہنے کا سلیقہ ہی contemporary کر لو
اور ہاں آج کے ھومو سیپینز کا مسئلہ، اب صرف محبت نہیں
بلکہ بہت سارے مسائل میں ایک یہ بھی ہے
محبت کہنا تو مُناسب نہیں شاید
یہ تو زہر کا پیالہ پی کے
کب کی رُخصت ہو چُکی

انسان سرمایہ دار کے چُنگل میں پھستا جا رہا ہے
مزارے پہ جاگیردار نے نسل درنسل غلامی کی مُہر چپکا دی ہے
حکمرانوں نے فرعون کی ممی پر بعیت کر لی ہے
رائٹسٹ اور لیفٹسٹ کی جنگ میں سماج شٹل کاک بنا پڑا ہے
جاہل ڈگریاں لاد کر دانشور کا ٹھپہ لگائے ناچ رہے ہیں
بے عمل عالم مرتبے کی کُرسی پر پُھدک پُھدک کر اپنے دھندے چمکا رہے ہیں
امیر امیر تر، غریب غریب تر ہو رہا ہے
معاشرہ روزبروز بے حس اور گھٹیا بن رہا ہے
عزتیں لُٹ رہی ہیں
گھر اُجڑ رہے ہیں
بھوک، بیماری سے
لوگ مر رہے ہیں
کبھی کھانے تو کبھی کپڑے کے سوال پر
مائیں بچوں سمیت موت گلے لگا رہی ہیں
انصاف کی آواز آخری ہچکی لے کر کالے دھندے والے کی دہلیز پر آرام فرما رہی ہے

اخلاص رہا نہ تعلق
دوست رہے ناں دوست نواز
سوشل بانڈنگ گھٹ رہی ہے
سائیکیٹری بڑھ رہی ہے
بے غرضی مر رہی ہے
خود غرضی جنم لے رہی ہے
جناب وحشت بڑھ رہی ہے
emptiness سب کچھ لپیٹ رہی ہے
کائنات پھیل رہی ہے
زندگی سِمٹ رہی ہے

آپ زندگی سے دور اپنے کونے میں بیٹھ کر غزل لکھیں
محبوب کی آنکھوں کو کنول، لبوں کو گلاب کی پنکھڑی لکھیں
زُلفوں کو رات اور چہرے کو چاند لکھیں
مرمری بانہیں اور صندلی بدن لکھیں
ہرن سی چال اور موتیے سے دانت لکھیں
جب آپ یہ سب لکھ چُکیں تو میرے عزیز شاعر
کمرے کی کھڑکی سے ذرا باہر جھانک کر
کسی جدید انسان کے دل کا بوجھ بھی لکھیں
گرتی دیواروں کا حال اور تاریک سایوں کا سوال بھی لکھیں
گر آپ کی غزل کے اوزان اور بہر کے معیار میں یہ سب نہ آ سکیں
تو پھر اپنی فرسُودہ روایت کا تفصیلی مُقدمہ ضرور لکھیں۔۔۔
فرح

0 comments:

میری کہانی روتی ہے

12:04:00 Farah Deeba Akram 0 Comments

میری کہانی روتی ہے
اور سوال پوچھتی ہے
مجھے کیوں جنا مابعد جدیدیت میں
میرے خیال پہ ہی گلا کیوں نہ گھونٹ دیا
ایسی رُسوائی سے' بےنامی اچھی
وقت کا گھڑیال سیکنڈز بیچ رہا ھے
قاری میں اور ڈکنسڑرکشن
ادب ، ادب کھیل رھے ہیں
لفظ فری مارکیٹ میں سیل پر ھے
معنی، خوشبو، خیر، اخلاص
کوٹ لکھپت کے پھاٹک پر
لہو میں لُتھڑے ملے ہیں
نا معلوم افراد نے گلا گھونٹ دیا
سورج نکل رہا ھے
دن ڈھل رہا ھے
خون بہھ رہا ھے
انسان مریخ پہ زندگی ڈھونڈ رہا ھے
زمین اپنا survival ڈھونڈ رہی ھے
ھم کوئی ناخُدا تخلیق کر کے
خُدا کھوج رہے ھیں
فرح

0 comments:

میں نظم کس کے لئے لکھوں

12:01:00 Farah Deeba Akram 0 Comments

میں نظم کس کے لئے لکھوں
ڈرائینگ روم کے پردے سے کتاب کا کور میچ کرنے والی بیگم صاحبہ کے لئیے
ڈائجسٹ کی کہانیوں میں شہزادے تراشنے والی کچی عُمر کی پکی لڑکیوں کے واسطے
سوشل میڈیا پہ سینکڑوں لائکس اور تعریفی کمنٹس کے لئے
گروپ بندی کے شکار جعلی مشاعروں میں روایتی واہ واہ کی صدا کی خاطر
کمرشل ادب کے مائی باپ بزنس مین پبلشر کے لئے
بھائی پاپولر ادب میں نھیں لکھ سکتی
ایسی شھرت پہ تھوکوں بھی ناں
مجھے اپنے لئے لکھنا ہے
اپنے احساس کو لکھنا ہے
محنت کش مزدور کی بات سُناوں گی
بارش میں ٹپکتی چھت کے نیچے
برتن ھاتھ میں تھامے بچے کو لکھوں گی
وزن سے دبی کمر کا خم لکھوں گی
بھوکے پیٹ، ننگے پاؤں، پیاسے لب
ھاتھ میں سوال اور دل میں ملال لئے
سڑکیں ناپنے والے بچے کا احوال لکھوں گی
سرکار کی پارک میں بیٹھے میاں بیوی، دو بچے
ایک پیکٹ بسکٹ کو بانٹ کے کھانے کا بیان لکھوں گی
ماں کے علاج کے پیسے پورے نہ ہونے پر
بےبس اولاد کا پُرشکوہ غم لکھوں گی
ایک بڑے گھر کے بننے میں
کتنے چھوٹے گھر مسمار ہوتے ہیں
اُن کا حساب لکھوں گی
اور نجانے کتنے احساس ھیں
جنھیں لفظ ملنے باقی ھیں
فرح

0 comments:

نثری غزل۔۔۔

11:52:00 Farah Deeba Akram 0 Comments

نثری غزل۔۔۔
پچھلے سال کئ صبحیں
ہم نے کھڑکی سے اکھٹے دیکھیں تھیں
کتنی دُھندلی شامیں ایک ساتھ
رات میں رخصت کی تھیں
یاد ہے وینس کے رستوں پہ
ہمیں ان گنت پھولوں نے چھوا تھا
اور نیل کے کنارے، بچپن میں کھو کر
کتنے خوشحال گھروندے بناۓ تھے
تُمے یاد ہے ہم نے کرسٹیوا کو سوربون کے کیفے سے
چھ بارکوفی پلا کے سیمون پہ اتنی با تیں کی تھیںں
کہ لاکاں خفا ہو کر
پیرس کی خشبوؤں میں کھو گیا تھا
اور ہم کتنے گھنٹے اورکوٹ پہنے
ہاتھوں کو جیبوں میں بھر کے
سرد گلیوں میں سارتر ڈھونڈ ھتے ڈھونڈتے
ڈیریڈا سے جا ٹکرائےتھے
پھر رات کے آخری پہر تلک، سگار کے جازبی دُھوئیں میں
سب کے چہرے تلاشتے تلاشتے، اپنا چہرہ وہیں چھوڑ آۓ تھے
تمہیں تو یاد ہی ہو گا، پچھلے سال
ہم سب کو سائلنس زون میں، گڈ باۓ کہہ آۓ تھے
فرح

0 comments: