دل ایسی راہ پہ چلنا چاہتا ہے
جس کی منزل
نظر آتی رہی
مگر اُس تک
میں کبھی پہنچ نہ پاؤں۔۔۔
پھسلن مٹی کا راستہ
جس پہ کبھی دھوپ نہ آئے
دن رات جیسا
رات بھیانک پاتال جیسی۔۔۔
کوئی اس کا مسافر ہو نہ طلبگار
وقت کا جبر ہو نہ زمانے کی قید
زندگی کی رعنائی ہو نہ موت کا آسیب۔۔۔
مجھے واپس بُلانے والوں کی
سب صدائیں بہری ہو جائیں
دیکھنے والوں کی بینائی نہ رہے
چاہنے والوں کے مرکز بدل جائیں
اور میں اُس دیوانے کی
لامتناہی تنہائی نگل لوں۔۔۔
فرح دیبا اکرم
خواب مر گئے ہیں
بس اب ہوں
جانے کہاں ہوں
کسں لئے ہوں
ٹھرا ہوا ہوں
نہیں' شاید چل رہا ہوں
نہیں نہیں۔۔۔الٹے دل بہہ رہا ہوں
رینگ رہا ہوں
کہنیوں کے بل
گرم ریت پر
الاسکا کے پہاڑوں میں
سورج کی پیشانی پہ
ہاں ہاں ہاں۔۔۔ وہ جو چاہ تھی منزل کی
اُسے اپنی روح سے کھرچ کر
کوڑے دان میں پھینک آیا ہوں
اب پکے فرش پہ بیٹھ کے
برفیلی ہوا کی چپیڑوں سے
خون نالیوں میں جما رہا ہوں
سگریٹ سے ماحول گرما کر
اپنا آپ redefine کرنے والا ہوں
دیکھو!
میں اپنے خواب کے ساتھ
 خود بھی مرنے والا ہوں۔۔۔
فرح
یہ شب گزاری
آسان نہیں صاحب
خود کا لہو جلا کر
روشنی کو جننا ہے
اپنے ہی سائے کے دائرے میں بیٹھ کر
زمانے کی قید کاٹنی ہے
نیند کے پہرے پہ
آنکھ نہیں جپکھنی
سانس روک روک کر
وقت بچانا ہے
تمنا پہ قدم رکھ کے
اگلی سیڑھی پہ چڑھ جانا ہے
یہاں کسی کو چھوڑ کر
وہاں پھر کسی اور سے ملنا ہے
جو ہاتھ پہ رکھی ہوئی ہے
اُسی سے اوپر اُٹھ کر
تم نے اُسے پانا ہے
جس کے مرکز سے جدا ہو کر
تم بھٹکنے لگے تھے
اور آج تک بھٹک رہے ہو
سُنو!
تم لوٹ جاؤ
ابھی ہی لوٹ جاؤ
اس سے پہلے کہ تمھارے زہہن سے
واپسی کا نشان مٹ جائے
اور تم اپنے ہی گرد گھومتے گھومتے
 ریت کی مُٹھی کھول دو۔۔۔
فرح
پچھلی یاد سے
نئے تعلق میں
اسے مسلسل سُن رہی ہوں
وہ مُجھ میں مسلسل بول رہا ہے
راتیں کیسے بحث و تکرار میں اُلجھتی رہیں
دن سانس کی قیمت میں صرف ہو گئے
جُملے نرم سے سخت۔۔۔سخت سے تُند۔۔۔تُند سے تکلیف دہ ہوئے
اسے شور پسند تھا
اور میں چیخ نہیں سکتی تھی
لڑتے لڑتے اک شام وہ
بے بسی کی اذیت میں
کمرے سے برآمدے کی سیڑھیوں پہ جا بیٹھا
کئی گھنٹے بچوں کی طرح بے پرواہ
خدا دیکھتے دیکھتے روتا رہا
جیسے کوئی بھرا برتن اچانک زمین پہ اُنڈیل دے
جانے وہ کون سا نحص لمحہ تھا
جس میں اسے چپ نگل گئی
دن، مہینے، سال۔۔۔امید میں رخصت ہوئے
لیکن ہم آواز کو دروازہ کھول کے اندر نہیں بُلا سکے
سرد مہری گلیشیئر سے پھوٹ کر
ہمارے دلوں میں جوان ہو گئی تھی
اُسے نفسیات نے دھوکہ دیا
مجھے خود پسندی نے رسوا کیا
ہم اپنے ہی کھینچے دائروں میں بھٹکتے ہوئے
ساری حیاتی خود کو پار نہ کر سکے۔۔۔
فرح

نثری نظم۔۔۔

نثری نظم۔۔۔
عجیب سی رات تھی
کوئی راز کی بات
جس میں پنہاں تھی
لمحہ لمحہ بیت کر
سال سال بڑھ رہی تھی
جو گزر گیا
وہی آنیوالا تھا
ستارے روشنیوں سے نکل کر
فنشنگ لائن کی سمت
بے نشاں بھاگ رہے تھے
صدیاں جوق در جوق
کُن میں داخل ہو رہی تھیں
کائنات در کائنات
سب حاضری میں تھے
حجاب کے کھلے میدان میں
سب اپنا اپنا احوال اُٹھائے
خود سے دستبردار ہو رہے تھے
نئے عہد و پیماں باندھ کے
اک اور جہاں کی تعمیر میں
باری باری ہجرت ہو رہی تھی
آہ سے آہٹ تک
خود سے پھر مجھ تک
نئی روح پرانے جسم میں
نا معلوم سیارے کی کوک میں چیختی ہوئی
زندگی سے ہاتھ ملا رہی تھی
اور میں الوداع ہو رہی تھی
فرح

End Note!!!

End Note۔۔۔
مجھے معلوم نہیں تھا
تعلق کا end note نہیں لکھتے
اس کی پرورش کرتے ہیں
بلاناغہ آبیاری کرنی ہوتی ہے
تراش خراش کرتے رہتے ہیں
دھوپ میں سایہ بن کر
کبھی سردی میں کرنوں کی صورت
اس کی دیکھ ریکھ کر کے
اک روز تناور رشتہ بنانا تھا
پھر اس کے پھل کو، پتھروں سے بچانا تھا

پوری بات سن کر
آدھی بھول جانی تھی
خود سے ہی جو کہتی رہی
اسے پاس بٹھا کر بتانی تھیں
مجھے اس کی چاہ ہے
ایک ہی بار بتانے والی بات
کئی کئی بار نہیں دہرانی تھی
اوروں نے جو بتلائی، وہی کہانی
ایک بار اُس سے بھی پوچھ لینی تھی

میں اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے
موجود سے غیر موجود میں
لامکاں سے مکاں میں
خود تھکنے لگی ہوں
اپنے سائے میں بیٹھتی ہوں تو
سایہ جسم سے بڑھنے لگتا ہے
دل راستہ، عشق مسافر، خواب راہنُما
منزل ساتھ ساتھ بتلاتی ہے
وہ مل جائے تو حاصل کا خالی پن
اور نہ ملے تو لاحاصل کی وحشت۔۔۔

فرح

Urbanization


نثری نظم۔۔۔اربنائزیش
شہر کی بے لگام رفتار میں
ہری، پیلی، لال بتی دیکھ دیکھ کر
سال لمحوں میں بیت گئے
رونقوں کے خالی پیالے میں
بے معنی قہقہے لگا لگا کر
کتنے ہی بیچارے لوگ
کامیابی سے گلے ملتے ہوئے
خود سے محروم ہو گئے
آسمان، کنکریٹ کے جِن اور ماتڑ لوگ
دیکھ کے دل، ایک نہیں کئی بار دہلتا ہے
بُلندی بڑی توجہ طلب ہوتی ہے
اور توجہ ایمانداری سے پھوٹتی ہے
اِدھر پل بھر کی کوتاہی
اُدھر کہانی کا tragic end
جانے کتنے گھروں کے چراغ بُجھیں گے
حاکموں کے بس امداد کے اعلان
افسوس کے بیان
اور انکوائری کے احکام آئیں گے
آنکھ کے پاس قدرت نہیں رہی
تا حدِ نظر عمارتیں ہی عمارتیں
جیسے ہوا میں لٹکے اُلو
اپنا آپ نوچ رہے ہوں
ماڈرنٹی ناشتے کی میز پر
ہمارا ورثہ کھا رہی ہے
شہر کی تہذیب آئی سی یو میں
الوداعی ہچکیاں بھر رہی ہے
لارنس کے پرندے، ایم ایم عالم کا فٹ پاتھ، کینال کے درخت
شہر کی تاریخی کتاب میں ملیں گے
دوست، احباب، رشتے، ناطے۔۔۔سارے
کریڈٹ کارڈ سے آن لائن دستیاب ہوں گے
خوشیاں ٹی سی ایس سے ہوم ڈلیور ہوں گی
بھائی سانس لینے کی قیمت ہو گی
زندگی بھی capitalist کی پروڈکٹ ہو گی
البتہ موت فری آف کاسٹ ہو گی
انسان بننے کی پھر سخت سزا ہو گی۔۔۔
فرح