نئی نسل بھی پُرانی نسل کا جدید چہرہ ہے

22:38:00 Farah Deeba Akram 0 Comments

نئی نسل بھی پُرانی نسل کا جدید چہرہ ہے
وُہی گھسے پٹے موضوع، پرانا وُہی اسلوب
کوئی نیاپن ہے نہ جدید جھونکا برداشت کرنے کا حوصلہ
اکیسویں صدی میں بیٹھ کر
محبوب، وصل، فراق کے قصیدے لکھ رہے ہیں
بھائی موضوع نہں بدلنا تو کم از کم
کہنے کا سلیقہ ہی contemporary کر لو
اور ہاں آج کے ھومو سیپینز کا مسئلہ، اب صرف محبت نہیں
بلکہ بہت سارے مسائل میں ایک یہ بھی ہے
محبت کہنا تو مُناسب نہیں شاید
یہ تو زہر کا پیالہ پی کے
کب کی رُخصت ہو چُکی

انسان سرمایہ دار کے چُنگل میں پھستا جا رہا ہے
مزارے پہ جاگیردار نے نسل درنسل غلامی کی مُہر چپکا دی ہے
حکمرانوں نے فرعون کی ممی پر بعیت کر لی ہے
رائٹسٹ اور لیفٹسٹ کی جنگ میں سماج شٹل کاک بنا پڑا ہے
جاہل ڈگریاں لاد کر دانشور کا ٹھپہ لگائے ناچ رہے ہیں
بے عمل عالم مرتبے کی کُرسی پر پُھدک پُھدک کر اپنے دھندے چمکا رہے ہیں
امیر امیر تر، غریب غریب تر ہو رہا ہے
معاشرہ روزبروز بے حس اور گھٹیا بن رہا ہے
عزتیں لُٹ رہی ہیں
گھر اُجڑ رہے ہیں
بھوک، بیماری سے
لوگ مر رہے ہیں
کبھی کھانے تو کبھی کپڑے کے سوال پر
مائیں بچوں سمیت موت گلے لگا رہی ہیں
انصاف کی آواز آخری ہچکی لے کر کالے دھندے والے کی دہلیز پر آرام فرما رہی ہے

اخلاص رہا نہ تعلق
دوست رہے ناں دوست نواز
سوشل بانڈنگ گھٹ رہی ہے
سائیکیٹری بڑھ رہی ہے
بے غرضی مر رہی ہے
خود غرضی جنم لے رہی ہے
جناب وحشت بڑھ رہی ہے
emptiness سب کچھ لپیٹ رہی ہے
کائنات پھیل رہی ہے
زندگی سِمٹ رہی ہے

آپ زندگی سے دور اپنے کونے میں بیٹھ کر غزل لکھیں
محبوب کی آنکھوں کو کنول، لبوں کو گلاب کی پنکھڑی لکھیں
زُلفوں کو رات اور چہرے کو چاند لکھیں
مرمری بانہیں اور صندلی بدن لکھیں
ہرن سی چال اور موتیے سے دانت لکھیں
جب آپ یہ سب لکھ چُکیں تو میرے عزیز شاعر
کمرے کی کھڑکی سے ذرا باہر جھانک کر
کسی جدید انسان کے دل کا بوجھ بھی لکھیں
گرتی دیواروں کا حال اور تاریک سایوں کا سوال بھی لکھیں
گر آپ کی غزل کے اوزان اور بہر کے معیار میں یہ سب نہ آ سکیں
تو پھر اپنی فرسُودہ روایت کا تفصیلی مُقدمہ ضرور لکھیں۔۔۔
فرح

You Might Also Like

0 comments: